امریکہ اور طالبان کی بات چیت ناکام

2019-09-12 11:06:17
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ خفیہ ملاقات منسوخ کرنے کے اعلان کے بعد ، افغانستان کی صورتحال کشیدہ ہوگئی ہے۔ 11 ستمبر کو نیویارک میں دہشتگرد حملے کی 18 ویں برسی تھی۔اس موقع پر افغانستان میں امریکی سفارتخانے پر راکٹوں کا حملہ کیا گیا۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ افغان سرکاری فوج اور طالبان کے مابین لڑائی شمال کے متعدد شہروں میں شدت اختیار کر گئی ہے۔

پاکستان کے اسلام آباد پالیسی انسٹیٹیوٹ کے ڈاریکٹر خالد رحمان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ جب سے امریکہ نے افغانستان میں جنگ کا آغاز کیا ہے ، افغانستان خانہ جنگی کا شکار رہا ہے۔ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا میں رکاوٹ پیدا کرنا بنیادی طور پر افغانستان میں امریکہ کے مفادات سے تعلق رکھتا ہے۔انہوں نےکہا کہ آج جب امریکہ کا انخلا نہیں ہوا ، افغانستان میں بہت سارے پرتشدد واقعات ہوئے ۔ لہذا ، میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کے حقیقی ارادے مشکوک ہیں۔ امریکہ کو امید ہے کہ وہ اس بحران سے فائدہ حاصل کریگا۔ امریکہ موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھا کر افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔امریکی فوجی انخلاء صرف ایک علامت ہے ، اور اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کیسے افغانستان کو پائیدار امن فراہم کرسکتاہے۔

خالد رحمان نے نشاندہی کی کہ امریکہ اور طالبان کے مابین ہونے والے مذاکرات افغانستان میں امن عمل کے لئے بہت اہمیت کے حامل ہیں ، تاہم ، افغان حکومت کی شراکت کے بغیر ان دو طرفہ مذاکرات کی حیثیت انتہائی نازک ہے ۔ اگر افغان مسئلے کو مکمل طور پر حل کرنا ہے تو ، افغانستان کے روایتی انداز میں بات چیت میں افغانستان کے تمام فریقوں کو شامل کرنا ضروری ہے۔


شیئر

Related stories