چین کے ساتھ فاصلے بڑھانے کے ٹرمپ کے فیصلے کے مہلک نتائج: امریکی میڈیا

2020-03-30 15:53:11
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

اٹھائیس تاریخ کو ، امریکی ماہ نامہ "دی اٹلانٹک "کی ویب سائٹ نے نیویارک سٹی یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے پروفیسر پیٹر بینیٹ کا ایک مضمون بعنوان" چین کے ساتھ ٹرمپ کی دوریوں کے مہلک نتائج" شائع کیا۔

مضمون میں کہا گیا ہے کہ وبا کے وقت ، کچھ امریکی سیاستدانوں اور مبصرین کا خیال تھا کہ "امریکہ کو چین سے الگ ہونا پڑے گا۔" لیکن در حقیقت ، نوول کورونا وائرس کی وبا کا سبق چین کے ساتھ تعاون کو روکنا نہیں ہے ، بلکہ صحت عامہ کے شعبے میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے تباہ کئے گئے تعلقات کی از سر نو تعمیر کرنا ہے۔

مضمون میں کہا گیا ہے کہ 2003 میں سارس کے خلاف جنگ میں ، 2009 میں H1N1 فلو اور 2014 میں ایبولا وائرس سے نمٹنے کے عرصے کے دوران، امریکہ اور چین کے مابین تعاون نے ان وباؤں سے لڑنے میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔

"واشنگٹن پوسٹ" کی ایک رپورٹ کے مطابق ، 2018 میں ، ٹرمپ انتظامیہ نے عالمی "وبا کی روک تھام کی سرگرمیوں" میں اپنی سرمایہ کاری کو نمایاں طور پر کم کیا۔ 2020 میں ، جس طرح نوول کورونا وائرس بڑھ رہا ہے ، ٹرمپ نے ایک بار پھر عالمی ادارہ صحت کے لئے امریکی فنڈز کو نصف تک کم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔

ٹرمپ دور میں صحت عامہ کے شعبے میں چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ جب سے ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ہے ، بیماریوں کے قابو پانے کے دونوں مراکز اور قومی صحت کے مرکز نے بیجنگ میں اپنےعملے کو کم کردیا ہے۔ نیشنل سائنس فاؤنڈیشن نے چین میں اپنا دفتر مکمل طور پر بند کردیا ہے۔ رینڈ کارپوریشن کے ایشیا اور پیسیفک پالیسی ریسرچ سینٹر سے وابستہ ایک ماہر ہوانگ ژیہوان نے کہا کہ موجودہ امریکی حکومت کا نظریہ یہ ہے کہ: "اگر آپ چینی سائنس دانوں کے ساتھ تحقیق کرتے ہیں تو یہ چین کی طاقت کو مستحکم کرنے کے مترادف ہیں ، جو امریکہ کے لئے اچھا نہیں ہے کیونکہ چین ایک اسٹریٹجک حریف ہے۔ "

اب ، امریکہ میں نوول کورونا وائرس کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے ، اس کے بعد واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین باہمی تعاون بہت اہم ہے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے بلومبرگ اسکول آف پبلک ہیلتھ کے سینٹر برائے صحت و حفاظت کے ڈائریکٹر ٹام انگلسبی نے کہا ، "موجودہ وبا سے لڑنے کے معاملے میں ، امریکہ اور چین تعلقات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔" چونکہ چین نے وبا پر قابو پا لیا ، "ہمیں ان سے سیکھنا چاہئے کہ انہوں نے کیا کیا۔ کیا وہ ویکسین کے بغیر معمول کی زندگی میں واپس آنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں؟ معاشرتی فاصلہ رکھنا اس وبا کو قابو کرنے میں موثر ہے۔ چین نے اس سلسلے میں کیا کیا ہے؟"

چین اس وقت بڑی مقدار میں حفاظتی سامان یورپ بھیج رہا ہے۔ امریکی ڈاکٹروں اور نرسوں کو اب ماسک ، چشمے ، دستانے ، حفاظتی لباس اور تھرمامیٹر درکار ہیں۔ ہوش ربا امریکی ٹیرف کی موجودگی میں چینی اشیاء کا امریکہ جانا مشکل ہے، اور اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز یہ ہے کہ جم بینکس نے "چینی وائرس" کا بدلہ لینے کے لئے ٹیکسوں میں مزید اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔

نوول کورونا وائرس کے ذریعہ سامنے آنے والی ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ آج کی عالمگیر دنیا میں علم اور طاقت کا توازن بدل گیا ہے۔ جب 2003 میں سارس کی وبا پھیلی تھی ،تو امریکہ چین کا استاد تھا۔ اب ، امریکی ڈاکٹر اور سائنس دان یہ جاننے کے لئے بے تاب ہیں کہ ان کے چینی ہم منصبوں نے ووہان میں نوول کورونا وائرس کو کس طرح شکست دی۔ ایسا لگتا ہے نوول کورونا وائرس کی وبائی بیماری کے اس دور میں ، چین کی فیکٹریاں عالمی سطح پر صحت عامہ کا ہتھیار بن جائیں گی۔


شیئر

Related stories