چین میں غربت کے خاتمے کی مہم ، ترقی پزیر ملکوں کے لیے امید کی کرن

2017-10-23 14:58:50
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

چین میں غربت کے خاتمے کی مہم ، ترقی پزیر ملکوں کے لیے امید کی کرن

شاہد افراز خان

ایک جانب اگر ہم عالمی سطح پر چین کے معاشی ،اقتصادی، سفارتی کردار کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب سماجی، معاشرتی اعتبار سے بھی چین دنیا میں ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔اس وقت عالمگیر سطح پر جو چیلنجز درپیش ہیں بالخصوص ترقی پزیر ممالک کو ، اس میں ایک بہت بڑا مسئلہ غربت کے خاتمے کا بھی ہے ۔اس ضمن میں دنیا کو غربت سے نجات دلانے میں چین کا ایک نمایاں کردار ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دنیا سے غربت کے خاتمے کے بڑا سہرا چین کے سر جاتا ہے تو بے جا نہ ہو گا  جس نے انتہائی کم عرصے میں کروڑوں لوگوں کو غربت کی لکیر سے نکالتے ہوئے ایک روشن مثال قائم کی ہے۔اگر ہم اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو چین میں کھلے پن اور اصلاحاتی عمل کے آ غاز کے بعد صرف تین دہائیوں میں تقریباً ستر کروڑ لوگوں کو سطح غربت سے نکالا گیا ہے اور اگر ان اعداد و شمار کا موازنہ اسی عرصے کے دوران عالمی سطح پر کیا جائے تو  حیرت انگیز طور پر یہ دنیا کا ستر فیصد بنتا ہے۔

آ سان الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں غربت کی شکار مجموعی آبادی میں سے ستر فیصد آبادی کو چین نے غربت سے نجات دلا دی ہے ۔چین کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں  موجودہ حکومت نے  گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ہر سال اوسطاً ایک کروڑ تیس لاکھ لوگوں  کو غربت کی لکیر سے نکالا ہے ، جبکہ چینی باشندوں کی فی کس سالانہ آمدنی تقریباً تیئس سو یوان رہی  ۔ یہ امر قابل زکر ہے کہ ہر ایک منٹ میں بیس لوگوں کو غربت سے چھٹکارا دلایا گیا ہے۔ اس قدر بڑے پیمانے پر حاصل کی جانے والی کامیابیوں میں صرف چین کی تیز رفتار معاشی ترقی اور  صنعت کاری کا عمل دخل نہیں ہے بلکہ حکومت کی جانب سے ایسے منصوبہ جات سامنے لائے گئے جن کی بدولت لوگوں کو غربت سے نجات ملی ہے۔ایک چیز بہت واضح ہے کہ چینی قیادتوں نے ہمیشہ طویل المیعاد بنیادوں پر منصوبہ بندی کی ہے  جس کے دور روس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

 ستر کی دہائی کے اواخر میں چین کی جانب سے غربت کے خاتمے کے لیے دیرپا منصوبہ جات کا آ غاز کیا گیا اور اس مقصد کی خاطر ایک حکومتی ادارے کا قیام عمل میں لاتے ہوئے فنڈز بھی مختص کیے گئے۔منصوبہ بندی کے تحت حکومت کی جانب سے کم ترقی یافتہ علاقوں کا تعین کیا گیا اور بعد میں دہائیوں تک ایسے علاقوں کو مرکزی حکومت اور خوشحال ہمسایہ علاقوں کی جانب سے  نہ صرف مالیاتی ، تیکنیکی امداد فراہم کی گئی بلکہ افرادی وسائل بھی مہیا کیے گئے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چینی حکومت کی جانب سے یہ کوشش کی گئی کہ  غربت کے خاتمے کی کوششوں کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور ایسی پالیسیاں ترتیب دی جائیں جن سے حقیقی نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

 دو ہزار تیرہ میں غربت کے خاتمے کی پہلی پالیسی کو  تبدیل کرتے ہوئے غریب افراد کی ضرورت کے عین مطابق نئی تبدیل شدہ اور موزوں پالیسیاں تشکیل دی گئی۔ اس ضمن میں یہ اقدامات کیے گئے کہ چین کے دور دراز اور نا قابل رسائی پہاڑی اور خشک علاقوں میں رہنے والے افراد کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ ایسے مقامات کو چھوڑتے ہوئے حکومت کی جانب سے موزوں علاقوں میں تعمیر کیے جانے والے گھروں میں منتقل ہو جائیں۔  اس پالیسی کے تحت دو ہزار بیس تک تقریباً ایک کروڑ لوگوں کی آباد کاری متوقع ہے۔یہ پالیسی اپنی نوعیت کی ایک منفرد کاوش ہے کیونکہ عام طور پر لوگ اپنے آبائی گھروں کو آسانی سے چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں لیکن جب بنیادی ضروریات زندگی ہی دستیاب نہ ہوں تو  پھر غربت جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔اس کی ایک مثال پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کا علاقہ بالا کوٹ بھی ہے جو 2005 کے تباہ کن زلزلے میں مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا اور بعد میں حکومت نے کوشش کی کہ اس علاقے میں بسنے والے لوگوں کو ایک نئے شہر میں منتقل کیا جائے لیکن آج بارہ سال گزرنے کے بعد بھی اس ہدف کی تکمیل نہیں کی جا سکی ہے جس سے یقینی طور پر وقت اور مالیاتی وسائل دونوں کا ضیاع ہوا ہے۔ اس ضمن میں چینی حکومت کو داد دینا پڑے گی کہ وسائل کا ایک بڑا حصہ ایسے رہائشی منصوبہ جات کے لیے مختص کیا گیا جن کی بدولت دیہی اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے افراد کی حوصلہ افزائی ہوئی کہ وہ نئے شہروں میں منتقل ہوں اور  زندگی کے نئے سفر کا ازسرنو  آ غاز کریں۔

چینی قیادت کی جانب سے غربت کے خاتمے کے اقدامات میں یہ کوشش کی گئی کہ  چینی باشندوں کو ملک کا کارآمد شہری بنایا جائے  اور ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے۔اس حوالے سے چینی حکومت کی جانب سے ہنر مند اور پیشہ ورانہ افراد کے لیے  سازگار صنعتی پالیسیاں اور مالیاتی امداد فراہم کی گئی تا کہ ایسے افراد یا تو اپنا روزگار شروع کر سکیں یا پھر روزگار کے اچھے مواقعوں کی تلاش کے لیے ترقی یافتہ علاقوں میں منتقل ہو جائیں۔اس ضمن میں مذکورہ پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے حکومت نے نجی شعبے کی شمولیت سے سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی کوشش کی۔امدادی فنڈز کے لیے اربوں یوان مختص کیے گئے اور تقریباً آٹھ لاکھ اہلکاروں کو پسماندہ علاقوں میں بھیجا گیا تا کہ وہ غربت کے خاتمے کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔انہی تمام پالیسیوں کی بدولت چین نے غربت کے خاتمے کی کوششوں میں مثالی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس سارے عمل میں ہم یہ دیکھتے ہیں چینی حکومت نے کبھی بھی غربت کے خاتمے کی مہم کو سست روی کا شکار نہیں ہونے دیا ہے بلکہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ان کے عزم ، ہمت اور اقدامات کو مزید تقویت ملی ہے۔موجودہ چینی حکومت کی یہ کوشش ہے کہ سال 2020 تک ملک کے تمام دیہی علاقوں کو غربت کی دلدل سے مکمل نجات دلوائی جائے جس کا مطلب یہ ہوا کہ  اس عرصے تک تقریباً چار کروڑ تیس لاکھ مزید لوگوں کو غربت کی لکیر سے باہر نکالنا ہے۔ اگرچہ چینی حکومت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں آبادی ایسے افراد پر بھی مشتمل ہے جن کے پاس ہنر مند یا پیشہ ورانہ صلاحیتیں محدود ہیں  ، معمر  اور معذور افراد بھی آبادی میں شامل ہیں ، بعض علاقوں میں قدرتی وسائل کم ہیں اور کچھ علاقوں میں قدرتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والے مسائل موجود ہیں لیکن ان تمام چیلنجز کے باوجود چینی قیادت کی جانب سے گزشتہ تین چار دہائیوں کے دوران کیے جانے والے اقدامات کی روشنی میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ چین غربت کے مکمل خاتمے کی کوششوں کا ہدف مکمل کر لے گا۔ چینی قیادت کی جانب سے غربت کے خاتمے کی کوششوں میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں کا تبادلہ دنیا کے ترقی پزیر ممالک سے بھی کیا جاتا ہے  کیونکہ چین کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک بھی عالمی ترقی کے عمل میں شامل ہو سکیں اور غربت  کا خاتمہ کیے بغیر اقوام متحدہ کے دو ہزار تیس کے پائیدار ترقیاتی اہداف  کا حصول بھی نا ممکن ہے۔چین نے ایک ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے غربت کو شکست دی ہے جو یقینی طور پر جہاں لائق تحسین ہے وہاں کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک اپنی سماجی خصوصیات کے تحت چینی ماڈل اختیار کرتے ہوئے غربت کے خاتمے سے اپنے عوام کو خوشحالی کی جانب لے جا سکتے ہیں۔


شیئر

Related stories